اپنا چہرہ کئی چہروں میں بدلتا دیکھوں

غزل| نصرتؔ گوالیاری انتخاب| بزم سخن

اپنا چہرہ کئی چہروں میں بدلتا دیکھوں
خود تماشا میں بنوں خود ہی تماشا دیکھوں
لاشیں پھولوں کی کبھی آگ کا دریا دیکھوں
ایک ہی خواب کی تعبیر میں کیا کیا دیکھوں
قتل ہونے سے اُجالے کو بچاؤں یا پھر
جسم کو چھوڑ کے جاتا ہوا سایہ دیکھوں
میری آنکھوں میں تو رہتے ہیں گلابی لمحے
دھول اُڑاتے ہوئے موسم کی طرف کیا دیکھوں
رشتے داری مری یوسف سے بہت دور کی ہے
کس لئے خود کو میں بازار میں بکتا دیکھوں
ایسا لگتا ہے کہ ہر شخص اداکار ہے اب
کوئی منظر تو ڈرامے کے علاوہ دیکھوں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام