مدینہ کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ

نعت| سید اقبالؔ عظیم انتخاب| بزم سخن

مدینہ کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
کہاں میں اور کہاں اس روضۂ اقدس کا نظارہ
نظر اس سمت اٹھتی ہے مگر دزدیدہ دزدیدہ
کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہا را دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ
مدینہ جا کے ہم سمجھے تقدس کس کو کہتے ہیں
ہوا پاکیزہ پاکیزہ ، فضا سنجیدہ سنجیدہ
بصارت کھو گئی لیکن بصیرت تو سلامت ہے
مدینہ ہم نے دیکھا ہے مگر نادیدہ نادیدہ
وہی اقبالؔ جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراقِ طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام