ہزار گردشِ شام و سحر سے گزرے ہیں

غزل| صوفی غلام مصطفی تبسمؔ انتخاب| بزم سخن

ہزار گردشِ شام و سحر سے گزرے ہیں
وہ قافلے جو تری رہ گزر سے گزرے ہیں
ابھی ہوس کو میسر نہیں دلوں کا گداز
ابھی یہ لوگ مقامِ نظر سے گزرے ہیں
ہر ایک نقش پہ تھا تیرے نقشِ پا کا گماں
قدم قدم پہ تری رہ گزر سے گزرے ہیں
نہ جانے کون سی منزل پہ جا کے رک جائیں
نظر کے قافلے دیوار و در سے گزرے ہیں
کچھ اور پھیل گئیں درد کی کٹھن راہیں
غمِ فراق کے مارے جدھر سے گزرے ہیں
جہاں سرور میسر تھا جام و مے کے بغیر
وہ میکدے بھی ہماری نظر سے گزرے ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام