جب تک غمِ جہاں کے حوالے ہوئے نہیں

غزل| شکیبؔ جلالی انتخاب| بزم سخن

جب تک غمِ جہاں کے حوالے ہوئے نہیں
ہم زندگی کے جاننے والے ہوئے نہیں
کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم
ڈوبے تھے گہری رات میں کالے ہوئے نہیں
چلتے ہو سینہ تان کے دھرتی پہ کس لئے
تم آسماں تو سر پہ سنبھالے ہوئے نہیں
انمول وہ گہر ہیں جہاں کی نگاہ میں
دریا کی جو تہوں سے نکالے ہوئے نہیں
طے کی ہے ہم نے صورتِ مہتاب راہِ شب
طولِ سفر سے پاؤں میں چھالے ہوئے نہیں
ڈس لیں تو اُن کے زہر کا آسان ہے اُتار
یہ سانپ آستین کے پالے ہوئے نہیں

تیشے کا کام ریشۂ گل سے لیا شکیبؔ
ہم سے پہاڑ کاٹنے والے ہوئے نہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام