کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں

غزل| مخمورؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

کتنی دیواریں اٹھی ہیں ایک گھر کے درمیاں
گھر کہیں گم ہوگیا دیوار و در کے درمیاں
کون اب اس شہر میں کس کی خبر گیری کرے
ہر کوئی گم اک ہجومِ بے خبر کے درمیاں
جگمگائے گا مری پہچان بن کر مدتوں
ایک لمحہ ان گنت شام و سحر کے درمیاں
ایک ساعت تھی کہ صدیوں تک سفر کرتی رہی
کچھ زمانے تھے کہ گزرے لمحہ بھر کے درمیاں
وار وہ کرتے رہیں گے زخم ہم کھاتے رہیں
ہے یہی رشتہ پرانا سنگ و سر کے درمیاں
کیا کہے ہر دیکھنے والے کو آخر چپ لگی
گم تھا منظر اختلافاتِ نظر کے درمیاں
کس کی آہٹ پر اندھیروں میں قدم بڑھتے گئے
رونما تھا کون اس اندھے سفر کے درمیاں
کچھ اندھیرا سا اجالوں سے گلے ملتا ہوا
ہم نے اک منظر بنایا خیر و شر کے درمیاں

بستیاں مخمورؔ یوں اجڑیں کہ صحرا ہوگئیں
فاصلے بڑھنے لگے جب گھر سے گھر کے درمیاں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام