فصیلِ جسم گرا دے مکانِ جاں سے نکل

غزل| ابھیشیک شکلا انتخاب| بزم سخن

فصیلِ جسم گرا دے مکانِ جاں سے نکل
یہ انتشار زدہ شہر ہے یہاں سے نکل
تری تلاش میں پھرتے ہیں آفتاب کئی
سو اب یہ فرض ہے تجھ پر کہ سائباں سے نکل
تمام شہر پہ اک خامشی مسلط ہے
اب ایسا کر کہ کسی دن مری زباں سے نکل
مقامِ وصل تو ارض و سما کے بیچ میں ہے
میں اس زمین سے نکلوں تو آسماں سے نکل
میں اپنی ذات میں تاریکیاں سمیٹے ہوں
تو اک چراغ جلا اور اب یہاں سے نکل
کہا تھا مجھ سے بھی اک دن ہوائے صحرا نے
مری پناہ میں آ جا غبارِ جاں سے نکل

سفر خود اپنے مسافر کا دھیان رکھتا ہے
بس اپنی خاک اٹھا اور اس مکاں سے نکل


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام