مر کے بھی قامتِ محبوب کی الفت نہ گئی

غزل| جلالؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

مر کے بھی قامتِ محبوب کی الفت نہ گئی
ہو چکا حشر بھی لیکن یہ قیامت نہ گئی
شب کو مے خوب سی پی صبح کو توبہ کر لی
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی
بوسہ لے کر جو مکرتا ہوں تو وہ کہتے ہیں
شاعری کا اثر اور جھوٹ کی عادت نہ گئی
داغ مٹتے نہ سنا دل سے تری حسرت کا
آئی جس گھر میں پھر اوس گھر سے یہ دولت نہ گئی
پاس بیٹھے بھی تو کیا جلد اٹھے گھبرا کر
میرا سودا تو گیا آپ کی وحشت نہ گئی
نہ ہوا صاف دلِ یار کسی طرح جلالؔ
خاک میں مل گئے ہم اس کی کدورت نہ گئی



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام