وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا

غزل| جلالؔ لکھنوی انتخاب| بزم سخن

وہ دل نصیب ہوا جس کو داغ بھی نہ ملا
ملا وہ غم کدہ جس میں چراغ بھی نہ ملا
گئی تھی کہہ کے میں لاتی ہوں زلفِ یار کی بو
پھری تو بادِ صبا کا دماغ بھی نہ ملا
چراغ لے کے ارادہ تھا بخت کو ڈھونڈیں
شبِ فراق تھی کوئی چراغ بھی نہ ملا
خبر کی یار کو بھیجا تھا گم ہوئے ایسے
حواسِ رفتہ کا اب تک سراغ بھی نہ ملا

جلالؔ باغِ جہاں میں وہ عندلیب ہیں ہم
چمن کو پھول ملے ہم کو داغ بھی نہ ملا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام