دل کو یوں سیلِ غمِ ہجر بہا لے جائے

غزل| محسؔن نقوی انتخاب| بزم سخن

دل کو یوں سیلِ غمِ ہجر بہا لے جائے
جیسے آندھی کسی پتّے کو اڑا لے جائے
گھر سے نکلے ہو تو دیکھو نہ پلٹ کر کہ تمہیں
جانے کس سمت یہ آوارہ ہوا لے جائے
دل سے لٹ کر بھی سخاوت کی تمنا نہ گئی
کوئی اجڑا ہوا آئے تو دعا لے جائے
خاکِ مقتل میری پوشاک سنبھالے رکھنا
کیا خبر کون یہ بوسیدہ قبا لے جائے
اس سے پہلے کہ خزاں چاٹ لے رنگت میری
میری خوشبو کا اثاثہ تو صبا لے جائے
اس کی زلفوں میں بچھی دھوپ بجھا دے کوئی
یا ہتھیلی سے کوئی رنگِ حنا لے جائے
اپنی سوچوں کے خزانے نہیں چھپتے مجھ سے
کوئی آئے جو مجھے خود سے چرا لے جائے
جس کا دامن بھی محبت سے ہو خالی محسنؔ
ہم غریبوں سے زرِ عہدِ وفا لے جائے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام