کسی کی بزم میں ہم اس خیال سے بھی گئے

غزل| احمد فرازؔ انتخاب| بزم سخن

کسی کی بزم میں ہم اس خیال سے بھی گئے
کہ وہ نہ سمجھے کہ ہم عرضِ حال سے بھی گئے
ہمیں تو تھے کبھی معیار دوسروں کے لئے
ہمیں تو ہیں کہ خود اپنی مثال سے بھی گئے
سبک خرامیٔ اغیار کی نہ کر تقلید
کہ اس جنوں میں کئی اپنی چال سے بھی گئے
وہ دن بھی تھے کہ نہ کٹتی تھی ایک شامِ فراق
یہ دن بھی ہیں کہ غمِ ماہ و سال سے بھی گئے
رفاقتوں کا بھروسہ ہی کیا ، گلہ کیسا
سو میل جول تو کیا بول چال سے بھی گئے
طلسم خانۂ حیرت ہے سر بسر دنیا
جنوب سے بھی گئے ہم شمال سے بھی گئے

بنا ہے یارِ بلا نوش محتسب جب سے
فرازؔ! صحبتِ یوسف جمال سے بھی گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام