الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں

مناجات| مولانا مفتی تقیؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں ، عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں
بھکاری وہ کہ جس کے پاس جھولی ہے نہ پیالہ ہے
بھکاری وہ جسے حرص و ہوس نے مار ڈالا ہے
متاعِ دین و دانش نفس کے ہاتھوں سے لٹوا کر
سکونِ قلب کی دولت ہوس کی بھینٹ چڑھوا کر
لٹا کر ساری پونجی غفلت و نسیاں کی دلدل میں
سہارا لینے آیا ہوں ترے کعبے کے آنچل میں
گناہوں کی لپٹ سے کائناتِ‌ قلب افسردہ
ارادے مضمحل ، ہمت شکستہ ، حوصلے مردہ
کہاں سے لاؤں طاقت دل کی سچی ترجمانی کی
کہ کس جنجال میں گزری ہیں گھڑیاں زندگانی کی
خلاصہ یہ کہ بس جل بُھن کے اپنی روسیاہی سے
سراپا فقر بن کر اپنی حالت کی تباہی سے
ترے دربار میں‌ لایا ہوں اب اپنی زبوں حالی
تری چوکھٹ کے لائق ہر عمل سے ہاتھ ہیں‌ خالی
یہ تیرا گھر ہے تیرے مہر کا دربار ہے مولا
سراپا نور ہے اک مہبطِ انوار ہے مولا
تری چوکھٹ کے جو آداب ہیں‌ میں ان سے خالی ہوں
نہیں جس کو سلیقہ مانگنے کا وہ سوالی ہوں
زباں‌غرقِ ندامت دل کی ناقص ترجمانی پر
خدایا رحم میری اس زبانِ‌ بے زبانی پر
یہ آنکھیں خشک ہیں‌ یارب انہیں رونا نہیں آتا
سلگتے داغ ہیں دل میں جنہیں‌ دھونا نہیں‌ آتا

الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
سراپا فقر ہوں ، عجز و ندامت ساتھ لایا ہوں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام