تمہارا ہاتھ بڑھا ہے جو دوستی کے لئے

نظم| علی سردارؔ جعفری انتخاب| بزم سخن

احمد فرازؔ کی نظم { دوستی کا ہاتھ } کے جواب میں

تمہارا ہاتھ بڑھا ہے جو دوستی کے لئے
میرے لئے ہے وہ اک یارِ غمگسار کا ہاتھ
وہ ہاتھ شاخِ گلِ گلشنِ تمنا ہے
مہک رہا ہے میرے ہاتھ میں بہار کا ہاتھ
خدا کرے کہ سلامت رہیں یہ ہاتھ اپنے
عطا ہوئے ہیں جو زلفیں سنوارنے کے لئے
زمیں سے نقش مٹانے کو ظلم و نفرت کا
فلک سے چاند ستارے اتارنے کے لئے
زمینِ پاک ہمارے جگر کا ٹکڑا ہے
ہمیں عزیز ہے دہلی و لکھنؤ کی طرح
تمہارے لہجے میں میری نوا کا لہجہ ہے
تمہارا دل ہے حسیں میری آرزو کی طرح
کریں یہ عہد کہ اوزارِ جنگ جتنے ہیں
انہیں مٹانا ہے اور خاک میں ملانا ہے
کریں یہ عہد کہ اربابِ جنگ ہیں جتنے
انہیں شرافت و انسانیت سکھانا ہے
جئیں تمام حسینانِ خیبر و لاہور
جئیں تمام جوانانِ جنتِ کشمیر
ہو لب پہ نغمۂ مہر و وفا کی تابانی
کتابِ دل پہ فقط حرفِ عشق ہو تحریر
تم آؤ گلشنِ لاہور سے چمن بر دوش
ہم آئیں صبحِ بنارس کی روشنی لے کر
ہمالیہ کی ہواؤں کی تازگی لے کر
پھر اس کے بعد یہ پوچھیں کہ کون دشمن ہے

ہندوستانی دانشوروں کے نام ایک نظم / احمد فراز کے صفحے میں پڑھیں۔


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام