کون سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے

غزل| ڈاکٹر وسیمؔ بریلوی انتخاب| بزم سخن

کون سی بات کہاں کیسے کہی جاتی ہے
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے
جیسا چاہا تھا تجھے دیکھ نہ پائے دنیا
دل میں بس ایک یہ حسرت ہی رہی جاتی ہے
ایک بگڑی ہوئی اولاد بھلا کیا جائے
کیسے ماں باپ کے ہونٹوں سے ہنسی جاتی ہے
قرض کا بوجھ اٹھائے ہوئے چلنے کا عذاب
جیسے سر پہ کوئی دیوار گری جاتی ہے
اپنی پہچان مٹا دینا ہو جیسے سب کچھ
جو ندی ہے وہ سمندر سے ملی جاتی ہے
پوچھنا ہے تو غزل والوں سے پوچھو جا کر
کیسے ہر بات سلیقے سے کہی جاتی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام