حدودِ ذات کے صحرا میں کیوں گنواؤ مجھے

غزل| اداؔ جعفری انتخاب| بزم سخن

حدودِ ذات کے صحرا میں کیوں گنواؤ مجھے
تمہارا خواب ہوں تم تو نہ بھول جاؤ مجھے
صبا کی راہ میں ٹوٹیں گلوں کی زنجیریں
نمازِ عشق ہوں معبد میں کیوں سجاؤ مجھے
تمام عمر کا حاصل ہے بے رخی ہی سہی
زہے نصیب! مقدر کو سونپ جاؤ مجھے
تمہارا عہدِ وفا ہوں تمھارا نازِ جنوں
تڑپ اٹھو گے مرے زخم اگر دکھاؤ مجھے
یہ تیرگی سرِ مقتل بڑی غنیمت ہے
خود اپنے دیدۂ غماز سے چھپاؤ مجھے
میں معجزہ ہوں وفاؤں کی بے کرانی کا
ابھی ہے وقت ابھی اور آزماؤ مجھے
یہ کیسا جبر ہے حدِ نگاہ بھی تم ہو
نظر اٹھا کے جو دیکھوں نظر نہ آؤ مجھے
پلک پلک پہ تمنا کا قرض باقی ہے
حصارِ شب میں اداؔ شوق سے جلاؤ مجھے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام