وہ خود پرست ہے اور خود شناس میں بھی نہیں

غزل| خاورؔ رضوی انتخاب| ابو الحسن علی

وہ خود پرست ہے اور خود شناس میں بھی نہیں
فریب خوردۂ وہم و قیاس میں بھی نہیں
فضائے شہر طلب ہے انا گزیدہ بہت
ادا شناس رہِ التماس میں بھی نہیں
میں کیوں کہوں کہ زمانہ نہیں ہے راس مجھے
میں دیکھتا ہوں زمانے کو راس میں بھی نہیں
وہ فیصلے کی گھڑی تھی کڑی سو بیت گئی
بچھڑ کے تجھ سے کچھ ایسا اداس میں بھی نہیں
یہ واقعہ کہ تجھے کھل رہی ہے تنہائی
یہ حادثہ کہ ترے آس پاس میں بھی نہیں
ہوا کرے جو ہے خاورؔ فضا خلاف مرے
اسیرِ حلقۂ خوف و ہراس میں بھی نہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام