مرے خیال سے لَو دے اٹھی ہے تنہائی

غزل| ناصرؔ کاظمی انتخاب| بزم سخن

مرے خیال سے لَو دے اٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
اُنہیں بھی دیکھ جنہیں راستے میں نیند آئی
ٹہر گئے ہیں سرِ راہ خاک اڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ ائے ہوائے صحرائی
رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لئے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی
یہ سانحہ بھی محبت میں بارہا گذرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
دلِ فسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی
میں سوتے سوتے کئی بار چونک چونک پڑا
تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی
جہاں بھی تھا کوئی فتنہ تڑپ کے جاگ اٹھا
تمام ہوش تھی مستی میں تیری انگڑائی
کھلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے نہ وہ جلسے نہ شہرِ رعنائی
وہ تابِ درد وہ سودائے انتظار کہاں
اُنہی کے ساتھ گئی طاقتِ شکیبائی
پھر اُس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصرؔ
بچھڑ کے جس سے ہوئی شہر شہر رسوائی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام