یہ سبزۂ نوخیز یہ گھنگھور گھٹائیں

غزل| وارثؔ کرمانی انتخاب| بزم سخن

یہ سبزۂ نوخیز یہ گھنگھور گھٹائیں
یہ بادۂ گلرنگ یہ مدہوش ہوائیں
یہ سازِ مسرت سے ہم آہنگ نظارے
یہ نشۂ مستی میں شرابور فضائیں
اے یارِ خوش اندام و خوش انداز و خوش آواز
یہ تیری گہر ریز و گہر بیز صدائیں
زلفوں میں لئے غالیہ و مشک کی خوشبو
آنکھوں میں غزالانِ ختن کی سی ادائیں
تجھ کو مرے اس نطقِ گہر بار کی سوگند
اس منظرِ شاداب سے آ لطف اٹھائیں
یہ جلتی ہوئی سانس یہ بہکے ہوئے جذبات
آ زیست کو معصوم گناہوں سے سجائیں
آ تازہ کریں رسم و رہِ حافظ و خیام
آ رومی و جامی کا مذاق آج اڑائیں
یہ جام و سبو تیرے ہیں یہ دور ہے تیرا
ہم بھول گئے لیلٰی و عذرا کی ادائیں
بھر بھر کے قدح ہائے گلاب و مئے گلگوں
اس وادئ پر کیف کو فردوس بنائیں
ہر گھونٹ میں ہو کوثر و تسنیم کی لذت
ہر شے میں کراماتِ مسیحا نظر آئیں

پھر بیٹھ کے اک ساتھ کسی شاخ کے نیچے
ہم اپنی کوئی تازہ غزل تجھ کو سنائیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام