وہ سنگِ گراں جو حائل ہیں رستے سے ہٹا کر دم لیں گے

ترانے| مولانا ذکی کیفیؔ انتخاب| بزم سخن

وہ سنگِ گراں جو حائل ہیں رستے سے ہٹا کر دم لیں گے
ہم راہِ وفا کے رہرو ہیں منزل ہی پہ جا کر دم لیں گے
یہ بات عیاں ہے دنیا پر ہم پھول بھی ہیں تلوار بھی ہیں
یا بزمِ جہاں مہکائیں گے یا خوں میں نہا کر دم لیں گے
ہم ایک خدا کے قائل ہیں پندار کا ہر بت توڑیں گے
ہم حق کا نشاں ہیں دنیا میں باطل کو مٹا کر دم لیں گے
ہر سَمت مچلتی کرنوں نے افسونِ شب غم توڑ دیا
اب جاگ اٹھے ہیں دیوانے دنیا کو جگا کر دم لیں گے
جو سینۂِ دشمن چاک کرے باطل کو مٹا کر خاک کرے
یہ روز کا قصہ پاک کرے وہ ضرب لگا کر دم لیں گے
یہ فتنہ و شر کے پروردہ تخریب کے ساماں لاکھ کریں
ہم بزم سجانے آئے ہیں ہم بزم سجا کر دم لیں گے
اب آگ نہ جلنے پائے گی نمرود صفت عیّاروں کی
ہم رحمت حق سے شعلوں کو گلزار بنا کر دم لیں گے
فرعون بنے جو پھرتے ہیں ڈھاتے ہیں ستم کمزوروں پر
ان سرکش و جابر لوگوں کو قدموں پہ جھکا کر دم لیں گے
ہر ازم کے بت کو توڑیں گے اسلام سے رشتہ جوڑیں گے
باطل کو مٹا کر چھوڑیں گے اسلام کو لا کر دم لیں گے

اللّٰہ کی رحمت سے کیفیؔ دم توڑ چکی ہے تاریکی
ہلکا سا دھندلکا باقی ہے اس کو بھی مٹا کر دم لیں گے

نوٹ:۔ جناب مولانا ذکی کیفی کا یہ مشہور ملی نغمہ مزید کئی اور اشعار کے ساتھ ان کے ملی نغمے بعنوان (امواج حوادث) حصہ سوم میں 'عزائم' کے عنوان سے تحریر ہے مگر کئی ایک حضرات نے اس میں کہیں کچھ کہیں کچھ حذف و اضافوں کے ساتھ اپنی طرف منسوب کیا ہے۔


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام