سادگی پر اس کی مرجانے کی حسرت دل میں ہے

غزل| مرزا غالبؔ انتخاب| بزم سخن

سادگی پر اس کی مرجانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
بس ہجومِ ناامیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذت ہماری سعیٔ بے حاصل میں ہے
رنجِ رہ کیوں کھینچئے وا ماندگی کو عشق ہے
اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم منزل میں ہے
جلوہ زارِ آتشِ دوزخ ہمارا دل سہی
فتنۂ شورِ قیامت کس کی آب و گل میں ہے
ہے دلِ شوریدۂ غالبؔ طلسمِ پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام