کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں

غزل| انشاء اللہ خاں انشاؔ انتخاب| بزم سخن

کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
نہ چھیڑ ائے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
تصور عرش پر ہے اور سر ہے پائے ساقی پر
غرض کچھ اور دھن میں اس گھڑی مے خوار بیٹھے ہیں
بسانِ نقش پائے رہرواں کوئے تمنا میں
نہیں اٹھنے کی طاقت کیا کریں لاچار بیٹھے ہیں
یہ اپنی چال ہے افتادگی سے اب کہ پہروں تک
نظر آیا جہاں پر سایۂ دیوار بیٹھے ہیں
کہاں صبر و تحمل آہ ننگ و نام کیا شئے ہے
میاں رو پیٹ کر ان سب کو ہم اک بار بیٹھے ہیں
نجیبوں کا عجب کچھ حال ہے اس دور میں یارو
جہاں پوچھو یہی کہتے ہیں ہم بے کار بیٹھے ہیں
بھلا گردش فلک کی چین کسے دیتی ہے ائے انشاؔ
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام