کیسے کیسے خواب دیکھے در بدر کیسے ہوئے

غزل| رساؔ چغتائی انتخاب| بزم سخن

کیسے کیسے خواب دیکھے در بدر کیسے ہوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے
نیند کب آنکھوں میں آئی کب ہوا ایسی چلی
سائباں کیسے اڑے ویراں نگر کیسے ہوئے
کیا کہیں وہ زلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھلی
ہم طرف دارِ ہوائے رہ گذر کیسے ہوئے
حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر یہ حادثے!
ایک ذرا سی زندگی میں اس قدر کیسے ہوئے
ایک تھی منزل ہماری ایک تھی راہِ سفر
چلتے چلتے تم اِدھر اور ہم اُدھر کیسے ہوئے
شعر لکھنا ہی فقط کافی نہیں مرزا رسؔا
جانتے ہو شاعر اتنے نامور کیسے ہوئے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام