مجھ سے ہٹ کر دیکھئے مجھ کو بھلا کر دیکھئے

غزل| مولانا مفتی تقیؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

مجھ سے ہٹ کر دیکھئے مجھ کو بھلا کر دیکھئے
میری الفت کا فسوں کچھ دور جا کر دیکھئے
آئینے کے جھوٹ پر ہرگز نہ کیجئے اعتبار
اپنے جلوؤں کو مری خلوت میں آ کر دیکھئے
کیمیا تاثیر ہے یہ ذرّۂ ناچیز دل
گر کسی کی یاد میں اس کو مٹا کر دیکھئے
مرگِ کیفِ عشق ہے ہنگامۂ روزِ وصال
دردِ الفت کا مزا فرقت میں جا کر دیکھئے
بس پسِ مژگاں ہی رکھئے آتشِ سیّالِ غم
عمر بھر کی پونجیوں کو کیوں بہا کر دیکھئے
کتنے غنچے مضطرب ہیں دل میں کھلنے کے لئے
اپنے ہاتھوں سے ذرا نشتر لگا کر دیکھئے
حسن کے ہاتھوں میں پہلے بے نوا بن جائیے
اقتدارِ عشق کا پھر لطف اٹھا کر دیکھئے
ڈھونڈیئے پھر بحرِ ظلمت میں مرادوں کے گہر
کشتیاں پہلے سرِ ساحل جلا کر دیکھئے
خشک پتھر کی رگوں میں منتظر سیرابیاں
تشنگی کی آگ سینے میں جلا کر دیکھئے
غم کے داغوں سے نہ ڈریئے ان سے پھوٹے گی بہار
ان گُلوں کو طاقِ ہستی پر سجا کر دیکھئے
گرمیٔ گفتار سے جب کچھ نہ حاصل ہو سکے
بے زبانی کی زباں بھی آزما کر دیکھئے
چاہیے آسیؔ اگر لطفِ حیاتِ جاوداں
اپنی ہستی ان کی چوکھٹ پر فنا کر دیکھئے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام