چلو کہ جام بھریں رقص واشگاف کریں

غزل| سلیم شوؔق پورنوی انتخاب| قتیبہ جمال

چلو کہ جام بھریں رقص واشگاف کریں
چلو کہ حجرۂ ساقی میں اعتکاف کریں
سنا ہے شیخ بھی آئے ہیں بادہ خانے میں
کہو کہ شیخ خرابات کا طواف کریں
چلو کہ چل کے محبت کا اعتراف کریں
اصول اہل عداوت سے اختلاف کریں
یہ سرد راتیں مجھے چین ہی نہیں دیتیں
چلے بھی آؤ کہ اب تم کو ہم لحاف کریں
امیرِ شہر کے قدموں میں میں نہیں گرتا
وہ چاہے سارا زمانہ مرے خلاف کریں
فقیہِ شہر کی طاعت تو لازمی ہے مگر
ہمیں یہ حق ہے کہ ناحق سے اختلاف کریں
مجھے گھسیٹ کے لائیں نہ اب سیاست میں
خدا کے واسطے اس سے مجھے معاف کریں
جناب شوقؔ زباں پر شکایتیں کیسی
کہا تھا کس نے میاں عین شین قاف کریں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام