اب جانا ہے اب جانا اب جانا زمانے کو

گیت| میرا جؔی ثناء اللہ انتخاب| بزم سخن

اب جانا ہے اب جانا اب جانا زمانے کو
اب چھوڑ دیا ہیں میں نے چاہت کے ترانے کو
سپنوں کے سہارے پر چاہا کہ ملوں تجھ سے
سکھ سیج کے سپنے میں یہ بھول ہوئی مجھ سے
سچائی سمجھ بیٹھا جینے کے بہانے کو
جینا ہی مرا کیا ہے جینے کا بہانہ ہے
ہر سانس کے پہلو میں اشکوں کا خزانہ ہے
ہنستا ہوں تو ہنستا ہوں غیروں کے دکھانے کو
سب عمر مری یونہی گذرے گی تو پھر کیا ہے
غم بڑھ کے نہ آئے گا اس غم سے جو دیکھا ہے
کافی ہے یہی دل کا ہر درد مٹانے کو
جوں توں میں چلاؤں گا ٹوٹی ہوئی کشتی کو
اور چاہے زمانے کا ہر تیر ہی زہری ہو

چپ چاپ سہوں گا میں ہر ایک نشانے کو
اب جان لیا میں نے اب جانا زمانے کو


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام