نہ منہ سے بولتا ہوا نہ سر سے کھیلتا ہوا

غزل| فرحؔت کانپوری انتخاب| بزم سخن

نہ منہ سے بولتا ہوا نہ سر سے کھیلتا ہوا
میں چل پڑا ہوں جادہ و نظر سے کھیلتا ہوا
مصیبتوں کی موج پُر خطر سے کھیلتا ہوا
الجھ پڑا طلسمِ بحر و بر سے کھیلتا ہوا
جہادِ زندگی میں ہوں میں خود کو یوں لئے دئے
رواں دواں ہوں موجِ خیر و شر سے کھیلتا ہوا
ترقیوں کی راہ میں بشر ہے آج گامزن
عناصر و حیاتِ خشک و تر سے کھیلتا ہوا
لگا کے ایڑ کارگاہِ کن میں ہوں رواں دواں
رکابِ ابلقِ شب و سحر سے کھیلتا ہوا
بلند کر کے نعرۂ پیامِ انقلاب میں
چلا ہوں آج شعلہ و شرر سے کھیلتا ہوا
رسوم و قید سے بلند مسلکِ خواص ہے
میں سجدہ کر رہا ہوں طاق و در سے کھیلتا ہوا
اب اس کو آپ اشتراکیت کہیں کہ دہریت
ہوں مبتدا سے بے خبر خبر سے کھیلتا ہوا
کسی کی مفلسی ہی میں شکوہِ قیصری بھی ہے
کوئی ہے اپنے زعمِ زور و زر سے کھیلتا ہوا
فریبِ چشمِ یار کو سمجھ رہا ہے ناسمجھ
جگر کو دیکھتا ہوا نظر سے کھیلتا ہوا
جنوں میں پرتوِ خرد خرد میں پرتوِ جنوں
میں بے نیازِ نقد ہوں نظر سے کھیلتا ہوا
دلِ غریب و ناتواں بڑھا ہی جا رہا ہے پھر
قدم قدم نفس نفس نظر سے کھیلتا ہوا
ترے فسونِ فیضِ لب سے فرحتِ غریب بھی
رہِ ہنر سے بولتا ہنر سے کھیلتا ہوا
رہِ امید و یاس میں دھواں سا اٹھ رہا ہے کچھ
کہ قافلہ ہے گردِ رہ گزر سے کھیلتا ہوا
زہے وجودِ بال و پر خوشا حیاتِ عنصری
میں اڑ چلا ہوں مشت بال و پر سے کھیلتا ہوا
مشاعرے میں فرحؔتِ حزیں کا ذکر ہی نہ کر
ہے ایک مردِ بے ہنر ہنر سے کھیلتا ہوا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام