تلخیاں رہ جائیں گی لفظِ وفا رہ جائے گا

غزل| حسن نظامؔی انتخاب| بزم سخن

تلخیاں رہ جائیں گی لفظِ وفا رہ جائے گا
درمیاں اخلاص کے پھر اک خلا رہ جائے گا
حادثاتِ زندگی پر غور کرنا چاہیے
چھوٹ جائے گا نوالہ سب پڑا رہ جائے گا
آنگنوں کے درمیاں دیوار جو اٹھ جائے گی
دھوپ میں اپنا کوئی باہر کھڑا رہ جائے گا
دن کے ہنگامے میں گم ہو جائے گا میرا وجود
آئینہ میں مجھ سا کوئی دوسرا رہ جائے گا
اس مسافت کی کبھی تکمیل ممکن ہی نہیں
آنے جانے کا فقط اک سلسلہ رہ جائے گا
دیکھ کر مکروہ سازش گاؤں کی دہلیز تک
سوچتا ہوں میں نظامؔی کیا بچا رہ جائے گا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام