اپنی تو ہجر میں ہی کٹیں راتیں کالیاں

غزل| غلام ہمدانی مصحفیؔ انتخاب| بزم سخن

اپنی تو ہجر میں ہی کٹیں راتیں کالیاں
بانہیں گلے میں یار نے کب آ کے ڈالیاں
اس کی کمر تو کاہے تو پتلی ہے اس قدر
یہ ہم سے شاعروں کی ہیں نازک خیالیاں
اودھر* سے شوقِ دید ہے اتنا کہ ہر طرف
دیوار میں ہیں رخنے تو غرفوں میں جالیاں
لوہو* بھرا ہے ہاتھ حنائی نہ بوجھیو
از بس کہ اس نے کتنوں کی جانیں نکالیاں
کرتی ہیں خون سینکڑوں تجھ کو بتاؤں کون
پانوں* کی سرخیاں ترے ہونٹوں کی لالیاں
کل کر رہا تھا غیر سے نظروں میں گفتگو
پر دیکھتے ہی کچھ مرے آنکھیں چرا لیاں

اے مصحؔفی ! تو ان سے محبت نہ کیجیو
ظالم غضب ہی ہوتی ہیں یہ دلّی والیاں

*اودھر:۔ اُدھر / *لوہو:۔ لہو / *پانوں:۔ پاؤں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام