از بس کہ چشمِ تر نے بہاریں نکالیاں

غزل| غلام ہمدانی مصحفیؔ انتخاب| بزم سخن

از بس کہ چشمِ تر نے بہاریں نکالیاں
مژگاں ہیں اشکِ سرخ سے پھولوں کی ڈالیاں
کیا جانے ہے وہ طرّۂ مقطوع کس کے ہاتھ
آنکھوں میں کاٹتا ہوں میں نت راتیں کالیاں
خط آئے پر بھی یار کا بدلا نہیں مزاج
وہ ہی ادا و ناز ہے ویسی ہی گالیاں
صیّاد چاہتا ہے جو بلبل کی زندگی
کنجِ قفس میں رکھ تو گلوں کی پیالیاں
کیا اعتماد یاں کے دِلا عزل و نصب کا
ایدھر تِغیریاں* تو اُدھر ہیں بحالیاں
آنکھوں میں جوشِ اشک سے اب یاں وہ حال ہے
جیسے کہ سیم خام سے پُر ہوں کٹھالیاں*
میرا یہ طفلِ دل تبھی حلقہ بگوش تھا
اے شوق جن دنوں تری زلفیں تھیں بالیاں
امرد پرست جان نہ دیں کیوں کہ مصحفیؔ
دل مرد ہو کے لیتی ہیں یہ چیرے* والیاں


*تِغیریاں:۔ تبدیلیاں / *کٹھالیاں:۔ سونا یا چاندی گلانے کی پیالی / *چیرہ:۔ ایک قسم کی منقش پگڑی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام