تجلیوں میں حواس گم ہیں تمیزِ عیش و الم نہیں ہے

غزل| مولانا عامرؔ عثمانی انتخاب| بزم سخن

تجلیوں میں حواس گم ہیں تمیزِ عیش و الم نہیں ہے
ستم کا شکوہ تو کیا کریں گے مجالِ شکرِ کرم نہیں ہے
وہ سامنے ہیں مگر تجلی نگاہ سے متہم نہیں ہے
حیا کی دوشیزگی سلامت نظر بھی پردے سے کم نہیں ہے
جسے پذیرائی ستم میں خوشی کا پہلو بہم نہیں ہے
وہ دل حقیقت میں دل نہیں ہے وہ غم حقیقت میں غم نہیں ہے
مسائلِ میکشی میں واعظ یہاں نفاقِ بہم نہیں ہے
تری سیاست تجھےمبارک یہ میکدہ ہے حرم نہیں ہے
نشاطِ ظاہر کی محفلوں میں وہ اس لئے محترم نہیں ہے
تمہارا عامرؔ بحمد للہ غلامِ دام و درم نہیں ہے
متانتِ ضبطِ اہلِ غم کو سکوں پہ محمول کرنے والے
اسی میں سوئے ہوئے ہیں طوفاں جو آنکھ ظاہر میں نم نہیں ہے
ترے تہی دامنوں کے حق میں ہے لطف کی ایک نظر بھی کافی
وہ کیا غمِ بیش و کم کریں گے انہیں سرِ بیش و کم نہیں ہے
ہمیں تو سیلِ جنوں کے رو میں وہیں سے مشکل ہوا گذرنا
طلب کے پر پیچ راستوں میں جہاں کہیں پیچ و خم نہیں ہے
خوشا یہ حسنِ کمالِ مطرب ٹہر گئی گردشِ زمانہ
فضا میں یوں دم بخود ہیں نغمے کہ فرصتِ زیر و بم نہیں ہے
لکھے گئے بے شمار دفتر مگر وہ اک خاص رازِ فطرت
ہیں جس کی تعبیر لفظِ الفت کہیں بھی اب تک رقم نہیں ہے
جنوں کی شدت میں اہلِ دل کو وفا کی توفیق کیا ملے گی
اگر محبت کی سر بلندی دماغ پر مرتسم نہیں ہے
مری جبینِ سخن پہ عامرؔ عیاں ہے میرا ہی عکسِ باطن
مرے تخیل میں کار فرما عوام کی مدح و ذم نہیں ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام