ساری جفائیں سارے کرم یاد آ گئے

غزل| ساغرؔ خیامی انتخاب| بزم سخن

ساری جفائیں سارے کرم یاد آ گئے
جیسے بھی یاد آئے ہوں ہم یاد آ گئے
جب بھی کہیں سے پیار ملا یا خوشی ملی
دنیا کے درد و رنج الم یاد آ گئے
دیکھیں ہیں جب بھی گل کے قریں چند تتلیاں
کتنے خیال و خواب بہم یاد آ گئے
لکھا تھا تم نے خط میں کہ تم نے بھلا دیا
کیا حادثہ ہوا ہے کہ ہم یاد آ گئے
پردیس میں جو آئی نظر نرگسی نگاہ
اک با وفا کے دیدۂ نم یاد آ گئے
مدت ہوئی ہے بچھڑے ہوئے اپنے آپ سے
دیکھا جو آج تم کو تو ہم یاد آ گئے

سلجھائیں جب بھی زیست کی ساغرؔ نے گتھیاں
ناگاہ تیری زلف کے خم یاد آ گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام