حسن کے انکار سے بھی کچھ تو پردہ رہ گیا

بزم مزاح| ظفرؔ اقبال انتخاب| بزم سخن

حسن کے انکار سے بھی کچھ تو پردہ رہ گیا
میں بھی کافی مطمئن ہوں وہ بھی اچھا رہ گیا
دل میں اس کے موم بتی سی جلائی بھی مگر
روشنی کے باوجود اتنا اندھیرا رہ گیا
خوبصورت ہے تو اتنا ہی کینہ بھی ہے وہ
ایک بھی دل نے نہ مانی میں تو کہتا رہ گیا
دیکھنے آتا بھی ہے چھوڑے ہوئے اس شہر کو
یعنی اس کے بعد کیا اجڑا ہے کتنا رہ گیا
موڑ کر دریا کو دشمن لے گئے اپنی طرف
اور ادھر روئے زمیں پر داغِ دریا رہ گیا
اور گھر دیکھو کوئی اس کے تو چہرے پر ظفرؔ
رنگِ دل باقی نہیں اب رنگِ دنیا رہ گیا



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام