عجب کشمکش ہے عجب ہے کشاکش یہ کیا بیچ میں ہے ہمارے تمہارے

گیت| ڈپتی مشرؔا انتخاب| بزم سخن

عجب کشمکش ہے عجب ہے کشاکش
یہ کیا بیچ میں ہے ہمارے تمہارے
ضرورت ضرورت ضرورت ضرورت
ضرورت کی خاطر مراسم ہیں سارے
ہیں چاروں طرف ہی بہت لوگ لیکن
حقیقت میں کوئی بھی اپنا نہیں ہے
دکھاوا دکھاوا سبھی کچھ دکھاوا
دکھاوے میں جیتے ہیں سارے کے سارے
بلندی پہ جن کو بھی دیکھا یہ پایا
سبھی آسرا ڈھونڈتے پھر رہے ہیں
کسے سر پرستی کے قابل سمجھئے
جیے جا رہے ہیں خود اپنے سہارے
سبھی اپنی اپنی کہے جا رہے ہیں
ہمیں ہم سے چھینے لئے جا رہے ہیں
ہمیں اپنی خاطر بھی رہنے دو تھوڑا
نہیں کوئی اپنا سوا اب ہمارے
ہمیں اپنی زد میں ہی رہنا پڑے گا
خودی کو خودی میں ڈبونا پڑے گا
نہ آپے سے باہر تو آنا سمندر
سمندر کو سمجھا رہے ہیں کنارے
فقط دوریوں میں ہی ساری کشش ہے
کہ نزدیکیوں سے بھرم ٹوٹتے ہیں
فلک پہ چمکنا ہے قسمت ہماری
زمیں سے یہ کہتے ہیں ٹوٹے ستارے
یہ جھوٹے سے رشتے یہ فرضی سے ناتے
کہاں تک نبھائیں کہاں تک نبھائیں
بہت ہو چکا بس بہت ہو چکا اب
کوئی تو بڑھے یہ مکھوٹے اتارے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام