تعارف شاعر

poet

ماہرؔ القادری

آپ کا پورا نام منظور حسین صدیقی اور تخلص ماہرؔ القادری ہے۔

آپ کی ولادت 30/ جولائی 1907ء کو بمقام کیسر کلاں بُلند شہر (یو پی) میں ہوئی ، آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم علی گڑھ سے حاصل کی اور 1926ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے میٹرک کرنے کے بعد  بجنور سے نکلنے والے مشہور اخبار "مدینہ" سے وابستہ ہوگئے ، اس کے علاوہ "غنچہ" رسالہ کی بھی ادارت کی ، ممبئ قیام کے دوران چند دن فلمی دنیا سے بھی تعلق رہا جس پر بڑے متاسّف بھی رہے ، آپ کے والد محمد معشوق علی ظریفؔ اچھے شاعر اور انگریزی داں تھے ، سلسلہ قادریہ میں آپ بیعت ہونے کی وجہ سے قادری آپ کے نام کا جُزو بن گیا ، والد کی وفات کے بعد کراچی آ گئے ، اپریل 1949ء میں آپ نے اپنا ادبی پرچہ "فاران" جاری کیا۔

ماہرؔ القادری نے تمام اضاف سخن میں طبع آزمائی کی ، شاعری کے ساتھ آپ نے تنقید و تبصرہ ، افسانے ، سوانح نگاری اور ناول نگاری کے علاوہ سیرتِ رسول اور اسلامی موضوعات پر بھی تصانیف لکھیں ، نعت نگاری آپ کا خاص فن تھا جس سے آپ نے بڑی شہرت پائی ، آپ نے اردو کے ساتھ ساتھ زبانِ فارسی میں بھی طبع آزمائی کی۔

12/ مئی 1978ء کو جدہ (سعودی عرب) کے مشاعرہ میں اپنا کلام کہتے ہوئے آپ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور جنت المعلیٰ (مکہ معظمہ) کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔

آپ کی نظم و نثر کی پچیس سے زائد تصانیف ہیں جن میں "محسوسات ماہرؔ" ، "جذبات ماہرؔ" ، "نغماتِ ماہرؔ" ، "طلسمِ حیات" ، "نقشِ توحید" ، "فردوس" ، "ذکرِ جمیل" ، "درِ یتیم" (سیرت رسولِ اکرم) ، "کاروانِ حجاز" اور "یادِ رفتگاں" مشہور و معروف ہیں۔

(تصویر/ریختہ)


ماہرؔ القادری کا منتخب کلام