عیش کے بدلے ہمیشہ غم ہمیں سہنا پڑا

غزل| نوحؔ ناروی انتخاب| بزم سخن

عیش کے بدلے ہمیشہ غم ہمیں سہنا پڑا
جس طرح قسمت نے رکھا اُس طرح رہنا پڑا
سنیے سنیے ماجرائے شوق سنیے شوق سے
آپ نے چھیڑا تو مجبوراً مجھے کہنا پڑا
چند قطرے خون کے جن پر تھی دل کی زندگی
آنسوؤں کے ساتھ آنکھوں سے اُنہیں بہنا پڑا
چار دن کی زندگی میں یہ نہ پوچھ اے ہم نشیں
کیا مجھے کرنا پڑا سننا پڑا کہنا پڑا
کیا ستم کیا رشک کیا آزار کیا غم کیا ملال
عشق میں سب کچھ دلِ بے تاب کو سہنا پڑا
دیکھ کر محشر میں اُن کو مٹ گئے سارے گلے
چپ نہ رہنے کی جگہ بھی چپ ہمیں رہنا پڑا
بحرِ الفت میں کیا موجوں نے عالم کو تباہ
جس طرف دریا کا رخ تھا اُس طرف بہنا پڑا
شکر ہے تیری بدولت اے دلِ راحت پسند
ہم کو دنیا کے بکھیڑوں سے الگ رہنا پڑا
اس سے بڑھ کر اب کیا ہوگی اور رسوائی مری
رازِ دل محشر میں سب کے سامنے کہنا پڑا
اب طریقِ عشق میں ہے ناتوانی سے یہ حال
جس جگہ میں گر پڑا مجھ کو پڑا رہنا پڑا

کشتیٔ امید ساحل پر اٹک کر رہ گئی
نوحؔ کو طوفانِ بحرِ یاس میں بہنا پڑا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام