کچھ محتسبوں کی خلوت میں کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے

غزل| فیض احمد فیضؔ انتخاب| بزم سخن

کچھ محتسبوں کی خلوت میں کچھ واعظ کے گھر جاتی ہے
ہم بادہ کشوں کے حصے کی اب جام میں کم تر جاتی ہے
یوں عرض و طلب سے کب اے دل ، پتھر دل پانی ہوتے ہیں
تم لاکھ رضا کی خُو ڈالو کب خوئے ستم گر جاتی ہے
بیداد گروں کی بستی ہے یاں داد کہاں خیرات کہاں
سر پھوڑتی پھرتی ہے ناداں فریاد جو در در جاتی ہے
ہاں ، جاں کے زیاں کی ہم کو بھی تشویش ہے لیکن کیا کیجے
ہر رہ جو اُدھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے
اب کوچۂ دلبر کا رہرو رہزن بھی بنے تو بات بنے
پہرے سے عدو ٹلتے ہی نہیں اور رات برابر جاتی ہے
ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں ہر روز نسیمِ صبحِ وطن
یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منوّر جاتی ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام