کسی جبیں پر شکن نہیں ہے کوئی بھی مجھ سے خفا نہیں ہے

غزل| حفیظؔ میرٹھی انتخاب| بزم سخن

کسی جبیں پر شکن نہیں ہے کوئی بھی مجھ سے خفا نہیں ہے
بغور میرا پیام شاید ابھی جہاں نے سنا نہیں ہے
سفینۂ عہدِ نو پہ چھایا ہوا ہے بہروپیوں کا لشکر
یہاں ہر اک ناخدا نما ہے مگر کوئی ناخدا نہیں ہے
خیال کے دیوتا بھی جھوٹے عمل کے سب سورما بھی جھوٹے
خرد بھی فریاد رس نہیں ہے جنوں بھی مشکل کشا نہیں ہے
ہر ایک میکش کے ظرف سے باخبر ہے کتنی نگاہِ ساقی
کسی کو ہے حکمِ جاں نثاری کسی کو اذنِ وفا نہیں ہے

کہاں کا شاعر خدائے شعر و سخن بھی ہم اس کو مان لیتے
حفیظؔ میں یہ بڑی کمی ہے کہ بندۂ خود نما نہیں ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام