سزائیں جتنی ملی ہیں اس ایک بھول کی ہیں

غزل| خوشبیر سنگھ شادؔ انتخاب| بزم سخن

سزائیں جتنی ملی ہیں اس ایک بھول کی ہیں
کہ ہم نے زندگی شرطیں تری قبول کی ہیں
سوال ہم نے کیا جب کبھی محبت کا
تو دوستوں نے بڑی قیمتیں وصول کی ہیں
میں اپنے چہرے کی رنگت کو کب کا بھول چکا
بڑی نوازشیں مجھ پر سفر کی دھول کی ہیں
مجھے بھی جینے کے سب داؤ پیچ آتے ہیں
مرے ضمیر میں پھانسیں مگر اصول کی ہیں
سخن کے پھول کھِلانے کو ہم کہاں جائیں
یہاں تو جتنی زمینیں ہیں سب نزول کی ہیں
ہوا کہ شہ پہ الجھ تو گئے تھے کانٹوں سے
قبائیں چاک چمن میں ہر ایک پھول کی ہیں

جو یادیں شادؔ کبھی باعثِ مسرت تھیں
طبیعتیں بھی اُنہیں نے بہت ملول کی ہیں


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام