منزلِ جاں کے اجالوں کا اشارہ کھو گیا

غزل| رئیسؔ الشاکری انتخاب| بزم سخن

منزلِ جاں کے اجالوں کا اشارہ کھو گیا
راستوں کی بھیڑ میں راہی بیچارا کھو گیا
بہتے دریا کے بدن کی بے لباسی دیکھنا
ناؤ طوفانوں سے الجھی اور کنارا کھو گیا
روشنی میں آ گئے جب رات کے کالے پہاڑ
صبح کی گل رنگ وادی کا نظارا کھو گیا
باغ کے پھولوں کی خوشبو میں الجھ کر رہ گئے
موسموں کا خوبصورت استعارا کھو گیا
فکر کی تہہ داریوں کے حُسن کی سرگرمیاں
تجزئیے کا مسئلہ سارے کا سارا کھو گیا
کچھ دنوں سے رنگ پر ہے عمر کے آخر کا کھیل
بجھ گئے روشن دیے جینے کا یارا کھو گیا

آنسؤوں کی راہ کهوٹی ہو رہی ہے اے رئیسؔ
رہبری کے شوق میں آنکھوں کا تارا کھو گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام