خوبصورت ہیں آنکھیں تری

غزل| حسنؔ کاظمی انتخاب| بزم سخن

خوبصورت ہیں آنکھیں تری
رات بھر جاگنا چھوڑ دے
خود بخود نیند آ جائے گی
تو مجھے سوچنا چھوڑ دے
تیری آنکھوں سے کلیاں کھلیں
تیرے آنچل سے بادل اڑیں
دیکھ لے جو تری چال کو
مور بھی ناچنا چھوڑ دے
تیری آنکھوں سے چھلکی ہوئی
جو بھی اک بار پی لے اگر
پھر وہ مے خوار اے ساقیا
جام ہی مانگنا چھوڑ دے
اے خوشی ایک پل کو سہی
میں کبھی تجھ سے مل تو سکوں
میرے گھر سے کہاں جائے گی
کچھ تو اپنا پتہ چھوڑ دے
زندگی ہے مسلسل سفر
سب کی ہے ایک ہی رہ گذر
ایک ہی جب ہے سب کی ڈگر
کیوں کوئی راستہ چھوڑ دے
میری آنکھوں میں رہتا ہے تو
تیری آنکھوں میں رہتا ہوں میں
صرف محسوس کر لے مجھے
آنکھ سے دیکھنا چھوڑ دے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام