اہلِ ستم جو راہ سے میری گذر گئے

غزل| پیامؔ سعیدی انتخاب| بزم سخن

اہلِ ستم جو راہ سے میری گذر گئے
جتنے دبے تھے زخم مرے سب ابھر گئے
وہ جو ملا کے میری نظر سے نظر گئے
محفل میں جانے کتنوں کے چہرے اتر گئے
قسمت کی الجھنوں کو سمجھنا محال ہے
گیسو نہیں سنوار دیا اور سنور گئے
ہم ہیں کہ اعتبار کیا اُن پہ بار بار
وہ بار بار وعدے سے اپنے مکر گئے
روداد اپنی اور سنائیں کسے پیامؔ
ہم لوگ زندگی کی تمنا میں مر گئے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام