سامانِ تجارت مرا ایمان نہیں ہے

غزل| ماجدؔ دیوبندی انتخاب| بزم سخن

سامانِ تجارت مرا ایمان نہیں ہے
ہر در پہ جھکے سر یہ مری شان نہیں ہے
ہرلفظ کو سینے میں بسا لو تو بنے بات
طاقوں میں سجانے کو یہ قرآن نہیں ہے
اللہ ! مرے رزق کی برکت نہ چلی جائے
دو روز سے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے
ہم نے تو بنائے ہیں سمندر میں بھی رستے
ہم کو یوں مٹانا کوئی آسان نہیں ہے
میں تیری محبت میں گرفتار ہوں لیکن
تجھ کو میں خدا سمجھوں یہ امکان نہیں ہے
دوچار امیدوں کے دیئے اب بھی ہیں روشن
ماضی کی حویلی ابھی ویران نہیں ہے
اللہ کے احکام کی تعمیل ہے لوگو
یہ فاقہ کشی مقصدِ رمضان نہیں ہے
وہ جس کو بزرگوں کی روایت نہ رہے یاد
اس شخص کی لوگو کوئی پہچان نہیں ہے

ماجدؔ ہے مرا شعر مرے عہد کی تصویر
غالؔب کی غزل میرؔ کا دیوان نہیں ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام