قریۂ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے

غزل| پروینؔ شاکر انتخاب| بزم سخن

قریۂ جاں میں کوئی پھول کھلانے آئے
وہ مرے دل پہ نیا زخم لگانے آئے
مرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ مرے گھر کے در و بام سجانے آئے
اُس سے اک بار تو روٹھوں میں اُسی کے مانند
اور مرے طرح سے وہ مجھ کو منانے آئے
اِسی کوچے میں کئی اس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
اب نہ پوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے تو کچھ بھی نہ بتانے آئے
ضبط کی شہر پناہوں کی مرے مالک خیر
غم کا سیلاب اگر مجھ کو بہانے آئے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام