حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے

غزل| امجد اسلام امجدؔ انتخاب| بزم سخن

حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے
کسی چراغ میں ہم ہیں کسی کنول میں تم
کہیں جمال ہمارا کہیں تمہارا ہے
وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشّے میں
تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے
وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں
ہر ایک حسن کسی حسن کا اشارا ہے
عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اتارا ہے
نجانے کب تھا کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گذارا ہے

یہ دو کنارے تو دریا کے ہوگئے ہم تم
مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام