کبھی نیندیں کبھی آنکھوں میں پانی بھیج دیتا ہے

غزل| عباس تابشؔ انتخاب| بزم سخن

کبھی نیندیں کبھی آنکھوں میں پانی بھیج دیتا ہے
وہ خود آتا نہیں اپنی نشانی بھیج دیتا ہے
بناتا ہے وہ کاغذ پر شجر اور بعد ازاں ان کو
مری جانب برائے باغبانی بھیج دیتا ہے
کسی کو سر اٹھانے کی بھی فرصت کیوں میسر ہو
وہ ہر سر کے مطابق سرگرانی بھیج دیتا ہے
میں جب متروک ہوتا ہوں پرانے لفظ کی صورت
مجھے تابشؔ کوئی تازہ معانی بھیج دیتا ہے



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام