میں ترے درد کو غزلوں میں لیے پھرتا ہوں

غزل| رئیسؔ انصاری انتخاب| بزم سخن

میں ترے درد کو غزلوں میں لیے پھرتا ہوں
اک سمندر ہے جو آنکھوں میں لیے پھرتا ہوں
روٹھ جائے نہ کہیں مجھ سے تُو دنیا کی طرح
اس لئے میں تجھے بانہوں میں لیے پھرتا ہوں
اک نہ اک دن تو یہ سمجھے گا زمانہ مجھ کو
اپنی آواز کو گلیوں میں لیے پھرتا ہوں
نیند آنکھوں سے دھواں بن کے اُڑی جاتی ہے
میں ترا چہرہ نگاہوں میں لیے پھرتا ہوں
یاد آ جاتا ہے گزرا ہوا بچپن مجھ کو
یہ کھلونے جو میں بچوں میں لیے پھرتا ہوں
کوئی محسوس کرے یا نہ کرے مجھ کو رئیسؔ
ایک خوشبو ہے جو رستوں میں لیے پھرتا ہوں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام