دھوپ کے پار ستاروں کا نگر لگتا ہے

غزل| ڈاکٹر بشیر بدرؔ انتخاب| بزم سخن

دھوپ کے پار ستاروں کا نگر لگتا ہے
اس پہاڑی پہ مجھے چاند کا گھر لگتا ہے
سر سے پا تک وہ گلابوں کا شجر لگتا ہے
با وضو ہو کے بھی چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے
مجھ میں رہتا ہے کوئی دشمنِ جانی میرا
خود سے تنہائی میں ملتے ہوئے ڈر لگتا ہے
چاند محراب پہ سوئی ہوئی اک آیت ہے
بے وضو آنکھیں ہیں پڑھتے ہوئے ڈر لگتا ہے
تتلیوں‌ کا مجھے ٹوٹا ہوا پر لگتا ہے
دل پہ وہ نام بھی لکھتے ہوئے ڈر لگتا ہے
رات آئی تو ستاروں بھری چادر تانی
خوبصورت مجھے سورج کا سفر لگتا ہے
یہ بھی سوئے ہوئے بچے کی طرح ہنستا ہے
آگ میں ‌پھول فرشتوں‌ کا ہنر لگتا ہے
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں‌ سر لگتا ہے
میں تیرے ساتھ ستاروں سے گذر سکتا ہوں
کتنا آسان محبت کا سفر لگتا ہے
بے خبر رات کی بانہوں میں سمٹ کر سونا
خوبصورت مجھے سورج کا سفر لگتا ہے

ایسا لگتا ہے کوئی سانپ چھپا بیٹھا ہے
پھول سے ہاتھ ملاتے ہوئے ڈر لگتا ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام