کچھ پھول تھے کچھ ابر تھا کچھ بادِ صبا تھی

غزل| خورشؔید رضوی انتخاب| بزم سخن

کچھ پھول تھے کچھ ابر تھا کچھ بادِ صبا تھی
کچھ وقت تھا کچھ وقت سے باہر کی فضا تھی
کچھ رنگ تھے کچھ دھوپ تھی کچھ وحشتِ انجام
کچھ سانس تھے کچھ سانس میں خوشبوئے فنا تھی
کچھ رنگِ شفق تیز تھا کچھ آنکھ میں خوں تھا
کچھ ذہن پہ چھائی ترے ہاتھوں کی حنا تھی
کچھ گزری ہوئی عمر کی یادوں کا فسوں تھا
کچھ آتے ہوئے وقت کے قدموں کی صدا تھی
صدیوں سے دھڑکتی ہوئی اک چاپ تھی دل میں
ایک ایک گھڑی صورتِ نقشِ کفِ پا تھی
دونوں کو وہی ایک بکھر جانے کا ڈر تھا
میں تھا گلِ صد چاک تھا اور تیز ہوا تھی

خورشیدؔ سرِ بام تہہِ دامنِ کہسار
دل تھا کہ وہی کوہ کی دیرینہ ندا تھی


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام