میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا

غزل| ساغرؔ صدیقی انتخاب| بزم سخن

میں تلخیٔ حیات سے گھبرا کے پی گیا
غم کی سیاہ رات سے گھبرا کے پی گیا
اتنی دقیق شے کوئی کیسے سمجھ سکے
یزداں کے واقعات سے گھبرا کے پی گیا
چھلکے ہوئے تھے جام پریشاں تھی زلفِ یار
کچھ ایسے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
میں آدمی ہوں کوئی فرشتہ نہیں حضور
میں آج اپنی ذات سے گھبرا کے پی گیا
دنیائے حادثات ہے اک دردناک گیت
دنیائے حادثات سے گھبرا کے پی گیا
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

ساغؔر وہ کہہ رہے تھے کہ پی لیجئے حضور
ان کی گزارشات سے گھبرا کے پی گیا


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام