محبت میں مسافت کی نزاکت مار دیتی ہے

غزل| ذو الفقار علی زلفیؔ انتخاب| بزم سخن

محبت میں مسافت کی نزاکت مار دیتی ہے
یہاں پر ایک ساعت کی حماقت مار دیتی ہے
محبت کے سفر میں ثالثی سے بچ کے رہنا تم
کہ اس راہِ محبت میں شراکت مار دیتی ہے
غلط ہے یہ گماں تیرا کوئی تجھ پر فدا ہو گا
کسی پر کون مرتا ہے ضرورت مار دیتی ہے
مارے ساتھ چلنا ہے تو منزل تک چلو ہم دم
ادھورے راستوں کی یہ رفاقت مار دیتی ہے
میں حق پر ہوں مگر میری گواہی کون دیتا ہے
کہ دنیا کی عدالت میں صداقت مار دیتی ہے
سرِ محفل جو بولوں تو زمانے کو کھٹکتا ہوں
رہوں میں‌ چُپ تو اندر کی بغاوت مار دیتی ہے
رہوں گھر میں تو مجھ پر طنز کرتا ہے ضمیر اپنا
اگر سڑکوں پہ نکلوں تو حکومت مار دیتی ہے
نہیں تھے پر بہت کچھ تھے ہم اپنی خوش گمانی میں
فسانوں میں جیئیں لیکن حقیقت مار دیتی ہے
کسی کی بے نیازی پر زمانہ جان دیتا ہے
کسی کو چاہے جانے کی یہ حسرت مار دیتی ہے
سرِ بازار ہر اک شئے مجھے انمول لگتی ہے
اگر میں بھاؤ پوچھوں بھی تو قیمت مار دیتی ہے

زمانے سے اُلجھنا بھی نہیں اچھا مگر زلفیؔ
یہاں حد سے زیادہ بھی شرافت مار دیتی ہے


پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام