حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں

غزل| قتیلؔ شفائی انتخاب| بزم سخن

حسن کو چاند جوانی کو کنول کہتے ہیں
ان کی صورت نظر آئے تو غزل کہتے ہیں
اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن
دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں
وہ ترے حسن کی قیمت سے نہیں ہیں واقف
پنکھڑی کو جو ترے لب کا بدل کہتے ہیں
پڑ گئی پاؤں میں تقدیر کی زنجیر تو کیا
ہم تو اس کو بھی تری زلف کا بَل کہتے ہیں
میں نے توڑی تھی صراحی کہ گھر آئے بادل
دوستو! اس کو مکافاتِ عمل کہتے ہیں
مجھ کو معلوم نہیں اس کے سوا کچھ بھی قتیلؔ
جو صدی وصل میں گزرے اسے پل کہتے ہیں



پچھلا کلام | اگلا کلام

شاعر کا مزید کلام